Dengue is the most common mosquito-borne viral disease
of humans that in recent years has become a major international public
health concern. Globally, 2.5 billion people live in areas where dengue
viruses can be transmitted. The geographical spread of both the
mosquito vectors and the viruses has led to the global resurgence of
epidemic dengue fever and emergence of dengue hemorrhagic fever
(dengue/DHF) in the past 25 years with the development of
hyperendemicity in many urban centers of the tropics.
Transmitted by the main vector, the Aedes aegytpi
mosquito, there are four distinct, but closely related, viruses that
cause dengue. Recovery from infection by one provides lifelong immunity
against that serotype but confers only partial and transient protection
against subsequent infection by the other three. There is good
evidence that sequential infection increases the risk of more serious
disease resulting in DHF.
DHF was first
recognized in the 1950s during the dengue epidemics in the Philippines
and Thailand. By 1970 nine countries had experienced epidemic DHF and
now, the number has increased more than fourfold and continues to rise.
Today emerging DHF cases are causing increased dengue epidemics in the
Americas, and in Asia, where all four dengue viruses are endemic, DHF
has become a leading cause of hospitalization and death among children
in several countries.
Currently vector control is
the available method for the dengue and DHF prevention and control but
research on dengue vaccines for public health use is in process. The
global strategy for dengue /DHF prevention and control developed by WHO
and the regional strategy formulation in the Americas, South-East Asia
and the Western Pacific during the 1990s have facilitated
identification of the main priorities: strengthening epidemiological
surveillance through the implementation of DengueNet; accelerated
training and the adoption of WHO standard clinical management
guidelines for DHF; promoting behavioral change at individual,
household and community levels to improve prevention and control; and
accelerating research on vaccine development, host-pathogen
interactions, and development of tools/interventions by including
dengue in the disease portfolio of TDR (UNDP/World Bank/WHO Special
Programme for Research and Training in Tropical Diseases) and IVR (WHO
Initiative for Vaccine Research).
کے عشرے میں جب
ایشیاء ،افریقہ اور شمالی امریکہ میں ایک ایسی بیماری پھیلی کہ جس میں
مریض کو یکدم تیز بخار ہو جاتا اور ساتھ ہی سر میں درد اور جوڑوں میں درد
شروع ہو جاتاجبکہ بعض مریضوں کے پیٹ میں درد ،خونی الٹیاں اورخونی پیچس کی
بھی شکایت ہو گئی۔یہ مریض سات سے دس دن تک اسی بیماری میں مبتلا رہے اور
آخر کار مر گئے۔لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور ان علاقوں سے لوگوں نے
ہجرت کرنا شروع کر دی ۔جب اس وقت کے طبیبوں اور ڈاکٹروں نے اس بارے میں
تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ ایک خاص قسم کا مچھر ہے جس کے کاٹنے سے یہ
مرض لاحق ہو جاتا ہے۔1979میں اس بیماری کی شناخت ہوئی اور اسے ڈینگو
بخار(Dengue fever) کا نام دیا گیا۔ڈینگو “dengue”سپینی زبان کا لفظ ہے جس
کے معانی cramp یا seizure کے ہیں جبکہ اسے گندی روح کی بیماری بھی کہا
جاتا تھا ۔1950میں یہ بیماری جنوب مشرقی ایشیاءکے ممالک میں ایک وبا کی
صورت میں نمودار ہوئی جس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ خصوصاً بچے ہلاک ہو
گئے ۔1990کے آخر تک اس بیماری سے ایک اندازے کے مطابق 40 لاکھ افراد ہلاک
ہو چکے ہیں ۔1975سے1980تک یہ بیماری عام ہو گئی۔2002میں برازیل کے جنوب
مشرق میں واقع ریاست Rio de Janeiro میں یہ بیماری وبا کی صورت اختیار کر
گئی اور اس سے دس لاکھ سے زائد افراد جن میں 16سال سے کم عمر کے بچے زیادہ
تھے ہلاک ہو گئے۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ یہ بیماری تقریباً ہر پانچ
سے چھ سال میں پھیلتی رہتی ہے۔سنگا پور میں ہر سال چار ہزار سے پانچ ہزار
افراد اس وائرس کا شکار ہو تے ہیں جبکہ 2003میں سنگاپور میں اس بیماری سے
چھ افراد کی ہلاکت بھی ہوئی۔ اور جو افراد ایک مرتبہ اس بیماری میں مبتلا
ہو جائیں وہ اگلی مرتبہ بھی اس بیماری کا جلد شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ مچھر
کے کاٹنے سے پھیلنے والی ملیریا نامی بیماری کی اگلی صورت کہی جا سکتی ہے
اس بیماری کے مچھر کی ٹانگین عام مچھروں سے لمبی ہوتی ہیں اور یہ مچھر
قدرے رنگین سا ہوتا ہے۔یہ بھی دیگر مچھروں کی طرح گندی جگہوں اور کھڑے
پانی میں پیدا ہوتا ہے۔ابھی تک اس بیماری کی کوئی پیٹنٹ دوا یا ویکسین
ایجاد نہیں ہوئی تاہم2003سے( Pediatric Dengue Vaccine Initiative (PDVI)
پروگرام کے تحت اس کی ویکسین تیار کی جانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔تھائی
لینڈ کے سائنسدانوں نے ڈینگو وائرس کی ایک ویکسین تیار کی ہے جو ابھی
ابتدائی مراحل میں ہے اگرچہ اس ویکسین کے تین ہزار سے پانچ ہزار افراد اور
مختلف جانوروں پر تجربے کیے جا چکے ہے جس کے ابھی تک قدرے مثبت نتائج
سامنے آئے ہیں۔2002 میں سوئس فارما کمپنی اورSingapore Economic
Development board نے مشترکہ طور پر اس وائرس کے خاتمے کی دوا تیار کرنے
پر کام شروع کیا ہوا ہے ۔ اس وبا سے نجات کا واحد حل یہی ہے کہ صفائی کا
خیال رکھا جائے اور گندے پانی کے جوہڑوں ، گلی کوچوں میں جراثیم کش ادویات
کا مسلسل سپرے کیا جائے تاکہ ڈینگو مچھر کی افزائش گاہیں ختم ہو
جائے۔جبکہ انفرادی طور پر رات کو مچھر دانی کا استعمال کیا جائے اور گھروں
میں مچھر کش ادویات سپرے کی جائے۔
حال ہی میں یہ
بیماری ایک مرتبہ پھر وبا کی صورت میں دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہی
ہے۔میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اگست سے اکتوبر 2006میں Dominican Republic
میں ڈینگو بخار پھیلا جس سے44سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ستمبر سے اکتوبر
2006میں کیوبا میں اس بیماری سے اموات ہوئیں۔جبکہ ساوتھ ایسٹ ایشیاءمیں بھی
یہ وائرس پھیل رہا ہے۔فلپائن میں جنوری سے اگست2006کے دوران اس مرض
کے13468مریض پائے گئے جن میں 167افراد ہلاک ہو گئے۔مئی2005میں تھائی لینڈ
میں اس وائرس سے 7200افراد بیمار ہو گئے جن میں 21سے زائد ہلاک ہو
گئے۔2004میں انڈونیشیا میں 80000افراد ڈینگو کا شکار ہو ئے جن میں800سے
زائد ہلاک ہو گئے۔جنوری2005میں ملائیشیا میں33203افراد اس بیماری کا شکار
ہوئے۔سنگا پور میں 2003میں4788افراد اس مرض کا شکار ہوئے
جبکہ2004میں9400افراد اور2005اس مرض سے 13افراد کی ہلاکت ریکارڈ کی
گئیں۔15مارچ2006کو آسٹریلیا میں اس مرض کے پھیلنے کی سرکاری طور پر تصدیق
کی گئی۔ستمبر2006میں چین میں اس مرض میں70افراد مبتلا ہوئے۔ستمبر2005میں
کمبوڈیا میںڈینگو سے38افراد ہلاک ہوئے۔ 2005میںکوسٹا ریکا میں19000افراد
اس مرض میں مبتلا ہوئے جن میں سے ایک فرد کی موت ریکارڈ ہوئی۔2005میں
بھارت کے صوبے بنگال میں900افراد بیمار ہوئے جبکہ15افراد کی ہلاکت کی
تصدیق ہوئی۔2005میں انڈونیشیا میں80837افراد اس بخار میں مبتلا ہوئے
جبکہ1099افراد کے مرنے کی تصدیق ہوئی۔2005میں ملائشیا میں32950افراد اس
بیماری کا شکار ہوئے اور83افرادہلاک ہو گئے۔2005میں Martinique
میں6000افراد ڈینگو کا شکار ہوئے جبکہ2ستمبر کو اس مرض سے دو افراد ہلاک
ہو گئے۔2005میں ہی فلپائن میں 21537افراد اس بیماری کا شکار ہوئے جن میں
سے280افراد ہلاک ہو گئے۔2005میں سنگاپور میں12700افراد اس بیماری کا شکار
ہوئے جبکہ19افراد کی اس مرض کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی۔2005میں سری لنکا میں
3000سے زائد افراد اس موذی مرض کا شکار ہوئے ۔2005میں تھائی لینڈ میں
31000افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے جبکہ58کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی
جبکہ2005میں ویتنام میں اس مرض کا شکار 20000سے زائد افراد پائے گئے جن
میں28افراد ہلاک ہو گئے۔
8اکتوبر 2006تک بھارت کے
شہر دہلی میں اس مرض کے886مریض پائے گئے جبکہ کیرالہ میں713،گجرات
میں424،راجستھان میں326،مغربی بنگال میں 314،تامل ناڈو میں 306،مہارشٹر
میں226،اترپردیش میں79،ہریانہ میں 65کرناٹک میں59اور اندھیراپردیش میں
70افراد اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔جبکہ بھارت کی حکومت نے ڈینگو کو
وباءقرار دینے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ مچھروں سے پھیلنے والی اس
بیماری پر پوری طرح سے قابو پانے کے لیئے تمام ترضروری اقدامات کر رہی
ہے۔ صحت کے مرکزی وزیر امبو منی رام دوس کا کہنا ہے کہ اب تک ڈینگو وائرس
سے ہندوستان بھر میں 38 اموات واقع ہوئی ہیں۔انہوں نے بتایا ہے کہ ملک میں
دو ہزار نوسو افراد ڈینگو وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 673 افراد
کا تعلق دلی سے ہے۔ ان کے مطابق ڈینگو سے ہونے والی 38 میں سے پندرہ اموات
دارالحکومت دلی میں ہوئیں جبکہ گجرات میں تین ، راجستھان میں سات، مغربی
بنگال میں تین اور کیرلا میں چار اموات ہوئی ہیںاور ملک میں دو ہزار نوسو
افراد ڈینگو وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 673 افراد کا تعلق دلی سے
ہے جبکہ بھارت کی حکومت کے بقول گزشتہ برس پورے ملک میں ڈینگو وائرس کے
گیارہ ہزار نو سو کیس سامنے آئے تھے اور اس بیماری نے 157 افراد کی جانیں
لیں تھیں۔بھارت میں ڈینگو بخار کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
ہسپتالوں میں روز نئے مریض داخل ہو رہے ہیں۔ اب تک اس وائرل بخار سے کم از
کم پچیس افراد کے ہلاک ہو نے کی خبر ہے۔اس دوران متاثرہ ریاستوں میں اس
بیماری پر قابو پانے کے لیئے ہنگامی انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ تجزیے اور
جانچ کے لیئے متعدد طبی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔بھارت کی ایک رپورٹ کے
مطابق ڈینگو بخار ایک خاص طرح کے ایڈیز نامی مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے اور
اس کی علامتوں میں تیز بخار، متلی ، جسم میں اینٹھن اور پیٹھ میں درد
جیسی شکایات شامل ہیں۔بخار کی تیزی کی وجہ سے بعض معاملات میں دماغ کی رگ
پھٹنے یعنی برین ہیمرج کا بھی خطرہ رہتا ہے۔
جبکہ
پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت نے بتایا ہے کہ سفید مچھر یعنی ڈینگو
مچھرکے کاٹنے سے ہونے والے ہیمرجک فیور سے گزشتہ تین ماہ کے دوران تئیس
افراد ہلاک جبکہ گیارہ سو سے زائد متاثر ہوئے ہیں ، جبکہ ڈاکٹروں کا کہنا
ہے مریضوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔محکمہ صحت کا کہنا ہے اس کا
بیماری کا اثر خشک موسم تک جاری رہے گا۔سندھ کے صوبائی وزیر صحت سردار
احمد کا کہنا ہے کہ اس سال مئی کے مہینے کے بعد ہیمرجک فیور کے مریضوں میں
بتدریج اضافہ ہوا ہے اور یہوائرس مزید پھیل رہا ہے۔ صوبائی وزیرِ صحت کا
کہنا ہے کہ اس وقت شہر کے مختلف ہسپتالوں میں ایک سو ستر سے زائد مریض زیر
علاج ہیں جبکہ کراچی میں بیس اور اندرون سندھ میں تین مریض فوت ہوچکے
ہیں۔ڈاکٹروں کی تنظیم کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس درست اعداد و شمار نہیں
ہیں مریضوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔پاکستان میڈیکل ایسو سی ایشن
کراچی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا کہ تمام اعداد شہر کے چند
سرکاری ہسپتالوں سے لیکر بتائے جارہے ہیں جبکہ اس وقت شہر میں چار سو سے
زائد نجی ہسپتال اور چھ ہزار سے زائد کلینک ہیں۔ اگر ہر نجی ہسپتال میں
روزانہ ایک مریض آرہا ہے تو چار سو مریض بنتے ہیں۔
عام
طور پر لوگ مقامی ڈاکٹروں کے کلینک سے دوائی لینے کو ترجیح دیتے ہیں جو
مرض کی تشخیص نہیں کر پاتے ہیں اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس سے مرض بگڑ
جاتا ہے۔ جناح ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی کی انچارج ڈاکٹر سیمی جمالی کا
کہنا ہے کہ جب مریضں کے منہ سے خون بہنا شروع ہوتا ہے اس وقت اسے ہسپتال
لایا جاتا ہے، پرائیوٹ ڈاکٹر ان کو طرح طرح کی دوائیں دیتے ہیں جس میں
ائنٹی ملیریا ڈرگ شامل ہے، جو کہ اس بیماری میں بالکل نہیں دینی چاہیئے۔اس
طرح سول ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر کلیم بٹ کا کہنا ہے کہ لوگوں
میں یہ خوف ہے کہ ڈینگی بخار میں موت واقع ہوجاتی ہے اس لئے مریض کے رشتے
دار پریشان ہوجاتے ہیں لیکن ڈینگی میں شرح اموات چار فیصد ہے جو بہت کم
ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس بیماری میں ایک بڑے عرصے تک تیز بخار ہوتا ہے، جسم
میں درد رہتا ہے اور جسم کے کسی حصہ سے خون بہتا ہے۔ ان مریضوں کا علاج
کا کیا جاسکتا ہے مگر یہ علاج گھر میں نہیں ہوسکتا ہے۔ صوبائی وزیر کے
مطابق شہر میں اب یہ ٹیسٹ دو نجی اور ایک سرکاری ہسپتال میں کیے جارہے
ہیں۔ اس ٹیسٹ کی کم سے کم فیس چھ سو روپے بنتی ہے۔ مگر اب اس کی آدھی رقم
سٹی حکومت ادا کریگی۔ اس طرح پلیٹ لیٹس کی ساڑھے سات ہزار فیس میں سے پانچ
سو رپے تمام بلڈ ٹرانسفیوڑن ایجنسیز رعایت کرینگی جبکہ پچاس فیصد فیس سٹی
حکومت ادا کریگی۔پاکستان میڈیکل ایسو سی ایشن کا مطالبہ ہے کہ وائرس کے
ٹیسٹ اور پلیٹ لیٹس کی فراہمی مفت ہونی چاہیئے اور یہ سہولت سرکاری
ہسپتالوں میں دی جائے۔صوبائی وزیرِ صحت کا کہنا ہے کہ ڈینگی وائرس سے بچنے
کے لئے احتیاطی تدابیر ضروری ہیں اور عوام کو اپنی حفاظت خود کرنی
ہے۔مچھر کی افزائش کی روک تھام کے لئے شہری حکومت کی جانب سے سپرے بھی
کروایا جارہا ہے۔ سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے مطابق اٹھارہ ٹاو�¿ن کی تمام
یونین کاو�¿نسلوں میں یہ سپرے کیا گیا ہے اور کافی علاقوں میں دوبارہ بھی
کیا جائیگا جبکہ کینٹونمینٹ کے علاقوں میں وہاں کے حکام کی جانب سے یہ
انتظامات کیے گئے ہیں۔کراچی شہر کے ایک نجی ہسپتال میں جمعہ کو ڈینگو
وائرس میں مبتلا ایک اور مریض ہلاک ہوگیا جبکہ ہیمرجک فیور میں مبتلا
مریضوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ صوبائی حکومت نے اس کے لیئے سرویلنس
کمیٹی بھی بنائی ہے، کمیٹی کے سربراہ کیپٹن ماجد کے مطابق جمع کے روز
ضیاالدین ہسپتال میں ایک اٹھائیس سالہ مریض کو لایا گیا تھا جو جانبر نہ
ہوسکا۔انہوں نے بتایا اس وقت شہر کی سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں ایک سو
پچپن مریض زیر علاج ہیں جن میں اکتالیس کو سنیچر کے دن داخل کیا گیا ہے۔
سیکریٹری صحت پروفیسر نوشاد شیخ نے بتایا کہ کراچی میں گزشتہ چار ماہ میں
اٹھارہ مریض ڈینگو وائرس سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان کے مطابق اندرون سندھ سے
اس بخار کی علامات ظاہر ہوئی ہیں مگر کوئی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ڈاکٹروں کے
مطابق ڈینگو وائرس کا شکار مریض کے خون سے سرخ خلیے ختم ہوجاتے ہیں، اس
لیئے انہیں سرخ خلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہر میں خون میں سے سرخ خلیے الگ
کرنے کی مشینوں کی کمی اور فوری طور پر خون کی دستیابی کے مسائل نے جنم
لیا ہے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ چار بوتل خون میں سے سرخ خلیوں کی ایک بوتل
بنتی ہے، اس لیئے زیادہ خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ڈاکٹروں کے مطابق ڈینگو
وائرس کا شکار مریض کے خون سے سرخ خلیے ختم ہوجاتے ہیں، اس لیئے انہیں سرخ
خلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہر میں خون میں سے سرخ خلیے الگ کرنے کی مشینوں
کی کمی اور فوری طور پر خون کی دستیابی کے مسائل نے جنم لیا ہے۔
ملیریا سے متعلق ادارے میں تحقیقات کرنے والے ایک افسر ڈاکٹر محمد مختار
کے مطابق کہ ڈینگو وائرس پھیلانے والا مچھر گندگی میں نہیں بلکہ گھروں میں
رہتا ہے۔ ان کے بقول گھر کے اندر پانی کے ٹینک، غسلخانوں اور جہاں بھی
پانی کسی بالٹی ، ڈرم یا گھڑوں میں رکھا جاتا ہے وہاں یہ مچھر پایا جاتا
ہے۔ ڈینگو وائرس پھیلانے والا مچھر سورج طلوع ہونے سے چند گھنٹے قبل اور
غروب ہونے کے چند گھنٹے بعد اپنی خوراک کی تلاش میں نکلتا ہے۔ ان کے مطابق
ڈینگووائرس کے جسم میں داخل ہونے کی علامات میں نزلہ زکام، بخار، سر درد،
منہ اور ناک سے خون آنا، پیٹ کے پیچھے کمر میں درد ہونا اور جسم پر سرخ
دانے وغیرہ نکلنا شامل ہیں اور اسے اگر فوری طور پر کنٹرول نہ کیا جائے تو
پھر ’ڈینگو ہیمرج فیور‘ شروع ہوتا ہے جو جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔اقوام
متحدہ کے صحت کے ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ دنیا کے
ایک سو کے قریب ممالک میں ڈینگو وائرس پھیلانے والے اڑتیس اقسام کے مچھر
ہیں جس میں سے پاکستان میں ان میں سے صرف ایک قسم کا مچھر پایا جاتا ہے۔
دنیا کی چالیس فیصد آبادی اس بیماری میں مبتلا ہے اور ہر سال پانچ کروڑ
کیسزسامنے آتے ہیں جس میں سے پوری دنیا میں سالانہ پندرہ ہزار سے زائد
افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جنوبی ایشیا میں پہلی
بار1949میں اس بیماری کے بارے میں علم ہوا اور اس خطے میں پوری شدت کے ساتھ
پہلی بار1989 سری لنکا میں یہ ایک وبا کی صورت میں پھیلی۔جبکہ اسی رپورٹ
کے مطابق پاکستان میں پہلی بار ڈینگو وائرس کراچی میں 1995 میں ریکارڈ
ہوئی اور145 مریض متاثر ہوئے اور ہلاکت صرف ایک کی ہوئی۔پاکستان میں ڈینگو
وائرس کی تاریخ کے مطابق اکتوبر 1995 میں جنوبی بلوچستان اور 2003 میں
صوبہ سرحد کے ضلع ہری پور اور پنجاب کے ضلع چکوال میں میں پھیلی۔ ان دونوں
اضلاع میں ترتیب وار 300 اور700 کیسز ریکارڈ ہوئے
0 Comments
To contact Study for Super-Vision, write your comments. Avoid spamming as your post will not be seen by any one.