اس کائنات کے معبودِ برحق نے اپنی کتاب قرآنِ مجید میں جس طرح بہت سے احکام و اوامر نازل فرمائے ہیں، اسی طرح دعا کا حکم بھی نازل فرمایا ہے۔ اللہ کا اپنے بندوں سے مطالبہ ہے کہ وہ اس سے اور صرف اسی سے دعا مانگیں اور مدد کے لیے اسی کو پکاریں۔ اس لیے کہ سب کچھ اسی کے دستِ قدرت میں ہے اور اس کائنات میں اس کی مشیت کے بغیر ایک پتّا بھی اپنی جگہ سے ہِل نہیں سکتا، اور اس لیے بھی کہ دعا عبادت ہے اور عبادت کسی دوسرے کی جائز نہیں۔ سورۂ مومن میں حکم دیا گیا ہے:
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِیْنَ )المومن۴۰:۶۰(
اور تمھارا رب کہتا ہے مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے گھمنڈ کرتے ہیں وہ عنقریب ذلّت و خواری کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔
اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عین عبادت قرار دیا ہے۔ نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دعا عین عبادت ہے۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اور تمھارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے گھمنڈ کرتے ہیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔ (ترمذی، ابن حبان ، احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، حاکم(
سورۂ اعراف میں کچھ تفصیل سے دعا کا حکم دیا گیا ہے:
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً ط اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ o وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ط اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ)o (الاعراف ۷:۵۵۔۵۶(
اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ زمین میں فساد برپا نہ کرو، جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ۔ یقیناً اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔
ان دو آیتوں میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ یہ ہیں:
۱۔ اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے۔ اس ہدایت میں
دعا کی حقیقت اور اس کے ادب کی بھی تعلیم دی گئی ہے۔
۲۔ اس کو پکارو خوف اور اُمید کے ساتھ۔ خوف اللہ کے عذاب کا اور
اُمید اس کے فضل و کرم کی
۳۔ دوسرے اعمال کی طرح دعا میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو۔ اس لیے کہ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
۴۔ اصلاح کے بعد زمین میں فساد نہ مچاؤ۔ سب سے بڑا فساد یہ ہے کہ اللہ سے منہ موڑ کر دوسروں کو اپنا ملجا و ماویٰ بنایا جائے، ان کو مدد کے لیے پکارا جائے اور ان کے نام کی دہائی دی جائے۔
۵۔ جو لوگ خوف اور اُمید کے ساتھ صرف اللہ کو پکارتے اور اس سے دعائیں کرتے ہیں وہ محسن ہیں، اور اللہ کی رحمت محسنوں سے قریب ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی دعا بندے کو درجۂ احسان تک پہنچا دیتی ہے۔ سورۂ اعراف ہی میں ایک دوسرے مقام پر کہا گیا ہے:
وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا (الاعراف ۷:۱۸۰(
’’اللہ کے بہت سے اچھے نام ہیں تو تم اسے انھی ناموں سے پکارو‘‘۔
اللہ کے اسماے حسنیٰ قرآن میں بھی ہیں اور احادیث میں بھی اور چونکہ اس کی صفات بے شمار ہیں، اس لیے کتنے ہی ایسے نام ہوں گے جن کا علم صرف اسی کو ہے۔ چنانچہ ایک دعا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ اس آیت کی بھی بہترین تفسیر ہیں۔ اس دعا کا متعلقہ ٹکڑا یہ ہے: ’’میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے ہر اس نام سے جس سے تو نے اپنے آپ کو موسوم کیا ہے، یا وہ نام جو تو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے، یا تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو اس کا علم عطا کیا ہے، یا اسے تو نے اپنے ہی علمِ غیب میں اپنے پاس محفوظ رکھا ہے‘‘۔(تفسیر ابن کثیر، ج ۲،ص ۲۶۹(
سورۂ بقرہ میں فرمایا گیا:
دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ) البقرہ ۲:۱۸۶(
میں قبول کرتا ہوں دعا مانگنے والے کی دعا کو جب مجھ سے دعا مانگے۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہِ راست پالیں۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ میں اپنے بندوں سے دُور نہیں ہوں کہ انھیں زور سے مجھے پکارنے کی ضرورت پڑے۔ میں تو ان کے قریب ہی ہوں۔ مجھے نہ زور سے پکارنے کی ضرورت ہے اور نہ میری بارگاہ میں درخواست پیش کرنے کے لیے کسی دوسری ہستی کے واسطے کی حاجت ہے۔ میرا ہر بندہ بلاواسطہ مجھ سے دعا کرسکتا ہے۔ میں اس کی دعا کو صرف سنتا ہی نہیں ہوں بلکہ اسے قبول بھی کرتا اور اس کے بارے میں فیصلہ بھی کرتا ہوں۔ جب ایسا ہے تو میرے بندوں پر بھی لازم ہے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ لہٰذا آیت کے اس ٹکڑے سے معلوم ہوا کہ یہ بڑی نادانی ہوگی کہ انسان اللہ کی اطاعت تو نہ کرے لیکن یہ توقع رکھے کہ اس کی دعائیں قبول کی جائیں گی۔ دراصل اللہ پر ایمان اور اس کی اطاعت ہی انسان کو اس کا مستحق بناتی ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے۔
اویس تبسم
0 Comments
To contact Study for Super-Vision, write your comments. Avoid spamming as your post will not be seen by any one.