دنیا کے تین بڑے منصوبے اور اسلام

نیو ورلڈ آرڈر اور اسلام 

Published from Blogger Prime Android App
دنیا میں فی الوقت تین بڑے طاقت کے منصوبے تکمیل کی طرف 
بڑھ رہے ہیں

  1.  ایک چین متحدہ چین(One China United China)
اس کو غلط نام سے مشہور کیا گیا ہے کوڈ نیم ون بیلٹ ون روڈ
مقصد: ملائیشیا ، انڈونیشیا ، فلپائن ، ہانگ کانگ ، سنگاپور ، تھائی لینڈ ، تائیوان ، تائے پے، شمالی و جنوبی کوریا ، میکسیکو ، وینزویلا ، برازیل ، امریکہ کی ریاست اوکلوہوما، ٹیکساس سمیت متعدد یورپی ممالک کو چین میں اسی طرح شامل کرنا جیسے فی زمانہ آسٹریلیا ، اسکاٹ لینڈ وغیرہ برطانیہ کے ماتحت ہیں۔

گریٹر اسرائیل یا اوڈڈ ینون
مشرق بعید ، مشرق وسطی سمیت پاکستان ، ترکمانستان ، آزر بائیجان وغیرہ کو اسی طریقہ سے اسرائیل کے ماتحت کرنا جیسے چائنہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے پر کام کر رہا ہے

 نیو ورلڈ آرڈر 1776
اس منصوبے کا مقصد سمجھ میں نہیں آیا البتہ اس کے شیطانی ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں ۔۔۔ مثلاً ایل جی بی ٹی ، ایل جی بی ٹی کیو وغیرہ۔ ظاہراً یہ منصوبہ عیسائیت کے خلاف نظر آتا ہے لیکن باطناً یہ ہر اس عمل کے الٹ ہے جو حکم الٰہی ہو۔ مثلاً اختلاط مرد و زن منع ہے یہ منصوبہ اسے پروان چڑھانے میں پیش پیش
مردو زن کی خفیہ دوستی کے خلاف قرآن مجید کا حکم موجود لیکن یہ نظام نکاح کے بجائے بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز کے تصور کو فروغ دینے میں مصروف ہے


اب آتے ہیں ان تینوں کو روکنے کی جانب

ایک اور منصوبہ ہے جو قیامت تک بلا تعطل جاری رہے گا
الارض للہ الحکم للہ
زمین اللّٰہ کی حکم بھی اللہ تعالیٰ کا

یاد رکھیں دنیا بھر میں ایک لمحہ بھی نہیں لگے گا اور نظام الہی نافذ ہو جائے گا
لیکن صورت حال یہ ہے کہ اللہ نے یہ ذمہ داری ہمیں دی کہ بطور خلیفہ اس کے احکام کو زمین پر نافذ کریں اور فساد، فسق و فجور کا خاتمہ کریں۔ اور ہماری اکثریت مال کمانے کو زندگی کا مقصد تصور کیے ہوئے ہے۔ یاد رکھیے اللہ نے ہمیں اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے، اگر ہم وہ سب کریں جو ہمارے ذمہ ہے تو ہمیں انتھک محنت اور کمر توڑ مشقت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ ضرورت ہے توکل اور یقین کی۔ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بالکل بھی مشکل نہیں کہ سب کو ایک ہی لمحہ میں مؤمن کر دے۔ لیکن پھر آزمائش کا عنصر باقی نہ رہے گا۔ افلا تعقلون پر عمل کیسے ہوگا۔ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنا ہماری ذمہ داری نہیںم ہماری ذمہ داری مسلسل کوشش ہے۔ باقی مشیت الہی ہے وہ جب چاہے گا کر دے گا۔ 
یہ گمان بھی دل سے نکال دیا جائے کہ بغیر دعوت حقم بغیر تبلیغ دین کیے ہم بچ پائیں گے۔ جس کو دین کا جتنا علم دے دیا گیا ہے، یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچائے۔ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی کہ یہ علماء کا کام ہے۔ ہم کوئی عالم نہیں۔ تو جناب عرض ہے کہ آپ کو کس نے روکا ہے عالم بننے سے۔ پیدائش سے لے کر اب تک آپ نے سب کام سیکھ لیے کھانا کھانے سے کما کر کھانے تک، نت نئے آمدن کے طریقے سوچنے کے لیے آپ کی عقل کام کرے لیکن دین کی بات سیکھنے کے لیے آپ کا دماغ ماؤف ہو ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا ۔ یہ تو جھوٹے بہانے ہیں ۔ ایسا کر کہ انسانوں کو دھوکہ تو دیا جا سکتا ہے لیکن رب کو نہیں۔ بلکہ ایسا کر کے انسانوں کو دھوکہ دے کر بھی اصل میں انسان خود کو دھوکے میں مبتلا کر لیتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
                            "یخدعون اللہ والذین آمنوا وما یخدعون الا انفسھم"       البقرہ
ترجمہ:            اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں (حقیقت میں) اپنے آپ کے سوا کسی کو دھوکہ نہیں دیتے
 
لہذا خود کو دھوکہ دینے کی بجائے سیدھے رستے پر آ جائیں اور الارض للہ الحکم للہ کے نفاذ میں، شریعت محمدی کے نفاذ میں اپنا کردار ادا کریں۔
جس وقت میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں، اس وقت تک ایک ماہ میں دو بار سویڈن میں گستاخانہ حرکات کی گئیں۔ ایسے ملعونوں کو جہنم واصل کرنا ضروری ہے۔اور ایسا محض مذمت کرنے سے کبھی نہیں ہو گا۔ انہیں سبق سکھانے کے لیے وہی طریقہ اختیار کرنا ہو گا جو گزشتہ 400 سال سے وہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یعنی  اینٹ کا جواب پتھر۔ انہیں ضرورت پڑی انہوں نے عراق، لیبیا، لبنان، شام، مصر، بوزنیا ہر جگہ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ہم نے فرق صرف یہ رکھنا ہے کہ ان کے لیڈروں کو سبق سکھانا ہے۔ عوام کی ذہن سازی تو لیڈران کر رہے ہیں۔ضرورت ہے اہل فساد کے پور پور کی مرمت کی۔ جب تک گردنیں نہ کاٹی جائیں کفار کو سمجھ ہی نہیں آتی ۔ اسی لیے دنیا بھر سے سزائے موت ختم کرانے کی تگ دو ہو رہی ہے کہ کل کو یہ ہمارے ہتھے چڑھ جائیں تو انہیں راہ فرار مل جائے۔

والسلام
ایم زی انور

Post a Comment

0 Comments