سچ تو یہ ہے کہ خان کا فیصلہ درست تھا، کہ جب تک تدفین نہ ہوگی میں کوئٹہ نہیں جاؤں گا

 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

نہ کوئی سیاسی مقصد نہ مالی لالچ۔ پھر بھی عرض کرتا چلوں کہ جو لوگ مجھے فیس بک ، ٹویٹرم واٹس ایپ، پن ٹرسٹ، فور سکوائر وغیرہ پر فالو کر رہے ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں موجودہ حکومت اور اس پالیسیوں سے قطعاً خوش نہیں ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میں حکومت کہ کسی عمدہ ترین اقدام پر بھی صرف اس لیے انگلی اٹھاؤں کیونکہ سیاسی طور پر میں جس پارٹی سے وابستہ ہوں اس پارٹی کے کسی بڑے نے اُس اقدام پر انگلی اٹھائی۔ جی میرا اشارہ کوئٹہ میں قتل ہونے والے چند افراد کی جانب ہے۔ اولاً میں انہیں کسی بھی طور شہید کہنے کے عمل کو ہر گز درست اس لیے بھی نہیں مانتا کیوں کہ وہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں شہید کی کسی تعریف پر پورے نہیں اترتے۔ ثانیاً ہزارہ برادری شیعہ مذہب کی حامل ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر زبان درازی کو ایمان کا حصہ سمجھتی ہے۔ثالثاً موجودہ واقعہ خالصتاً برادری ازم کا نتیجہ تھا۔ رابعاً ہزارہ برادری کی اکثریت پاکستان کی شہریت نہیں رکھتی۔ خامساً 1983 میں 700+ مسلمانوں کا قتل عام کر کے ہزارہ برادری نے جو بویا اس کی پکی پکائی فصل آج کاٹ رہے ہیں۔ سادساً مندرجہ ذیل مطالبات پر غور کریں اور بتائیں ان کا مقتولین سے کیا تعلق بنتا ہے سوائے اس کے کہ یہ مطالبات موجودہ گورنمنٹ اور عسکری اور دیگر اداروں کو رَکّ کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے

ا: ایف سی کمانڈر کو تبدیل کیا جائے

ب: بلال نورزئی کے قتل میں گرفتار ہزارہ برادری کے تمام افراد کو فی الفور رہا کیا جائے

ج: ہزارہ برادری کے ہر شخص کو پاکستانی شہریت دی جائے۔

د: ہزارہ برادری کے علاقہ کو فصیل بند کیا جائے۔ اور اس پر سرکاری گارڈ مقرر کی جائے

ہ: ہزارہ برادری پر پہلے سے قائم مقدمات کو کالعدم قرار دیا جائے

 

ایک معمولی سوچ والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ ان مطالبات کا لاشوں کے دفنانے اور موجودہ مقتولین سے کوئی واسطہ نہیں اگر کوئی ثابت کر دے تو یقیناً یہ بھی ثابت ہو گا کہ ہزارہ برادری نے ہی گزشتہ سالوں میں ایف سی پر حملے کیے، بلال نور زئی کو قتل کیا، سراج رئیسانی کو قتل کیا، یہ کہ یہ برادری کئی مقدمات میں ملوث ہے۔



             
سو مقتولین سے ہمدردی اور غداری میں فرق کو سمجھیں۔ مقتولین کے لواحقین یقیناً صدمے کا شکار ہیں لیکن کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ لاشیں سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا جائے۔ یہ کسی اور کا ایجنڈا ہے جو ہزارہ برادری کہ ان پاکستانی شہریوں کو رَکّ کر کے تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔



             
ایسے حالات میں ان غیر پاکستانی (اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ لاشوں کو سڑکوں پر رکھنے کا فیصلہ پاکستانی ہزارہ برادری کا نہیں تھا) لوگوں کے ہاتھوں رَکّ ہونے کے بجائے عمران خان کا لاشوں کی تدفین تک کوئٹہ نہ جانے کا فیصلہ 100 فیصد درست تھا۔ اور یہ ان چند فیصلوں میں سے ایک ہے جن کی میں پوری طرح سے حمایت کرتا ہوں۔



شاہ احمد ناصر علی منور

 

Post a Comment

0 Comments