حدیث مشہور اللھم ادخلہ علینا ۔۔۔ کی تحقیق اور حکم

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم

گزشتہ چند برس سے دیکھنے میں آیا ہے کہ فتنہ وضع حدیث نے ایک نئی جہت اختیار کر لی ہے وہ یہ کہ صحیح اور حسن احادیث کو بے موقع پیش کرنا اور مفہوم جانے بغیر اس کے احکام صادر کرنا۔ ایسا ہی کچھ نئے ماہ اور نئے سال کی آمد سے متعلق ہے۔ تمہید کو مختصر کرتے ہوئے پضمون پیش خدمت ہے۔


سوال : کیا نئے سال یا نئے مہینہ کے شروع ہونے پر پڑھنے کی کوئی دعا احادیث میں وارد ہے ؟
جواب: جی ہاں ایسی چند روایات موجود ہیں جن میں نئے ماہ یا نئے سال کے شروع پر دعا پڑھنے کا ذکر موجود ہے۔

كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَتَعَلَّمُونَ هَذَا الدُّعَاءَ إِذَا دَخَلَتِ السَّنَةُ أَوِ الشَّهْرُ :

اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ
یعنی: جب نیا سال یا مہینہ شروع ہوتا تو صحابہ یہ دعا سکھایا کرتے تھے۔
 مذکورہ روایت دو اصحاب عبداللہ بن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبداللہ بن السائب سے مروی ہے۔

دیگر صحابہ سے یہ روایت اولاً تو ان الفاظ سے منقول نہیں کیوں کہ ان میں سال یا مہینے کا ذکر نہیں اور ثانیاً ان روایات میں دعا کے چاند نظر آنے پر پڑھنے کی تصریح موجود ہے۔ ثالثاً ہجری سن کا آغاز رسول اللہ ﷺ کی مدینہ منورہ آمد پر ہوتا ہے۔ اور سال کا پہلا مہینہ محرم ہوگا اس کا فیصلہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کیا۔ اس سے قبل سالوں کی گنتی رکھنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ اس لیے روایات میں رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کا سن نہیں لکھا بلکہ یہ تحریر کیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت عام الفیل میں ہوئی۔ 

کیونکہ سالوں کا حساب رسول اللہ ﷺ کی زندگی مبارک میں شروع نہیں ہوا تھا اس لیے یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ رسول اللہ ﷺ نے سال کے آغاز پر اس دعا کی تلقین فرمائی ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جب ہر ماہ کہ آغاز پر دعا پڑھی جائے گی تو لازماً محرم کے آغاز میں بھی پڑھی جائے گی۔

صحتِ روایات:
حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ اورحضرت عبداللہ بن السائب رضی اللہ عنہ کی روایت ، تو ان میں عبداللہ بن ھشام والی روایت دو طرح کی اسانید سے مروی ہے ، ایک مضبوط اور دوسری ضعیف، اور عبد اللہ بن السائب کی روایت ایک ضعیف سندسے، جس کی تفصیل اس طرح سے ہے :

پہلے صحابی (عبداللہ بن ہشام ) کی حدیث کی اسانید:

۱۔ مضبوط سندسے امام بغوی نے اپنی کتاب ’’ معجم الصحابہ ‘‘ میں روایت کیا ہے ، فرمایا :

1539 – حدثني إبراهيم بن هَانىء ،حدثنا أصبَغُ قال : أخبرني ابنُ وَهب ، عن حَيْوَة ، عن أبي عَقيل ، عن جدِّه عبدِ الله بن هشام قال : كان أصحابُ رسولِ الله صلى الله عليه وسلم يتعلَّمون هذا الدعاءَ كما يتعلَّمون القرآنَ إذا دخل الشهرُ أو السنةُ : اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ .

۲۔ ضعیف سند امام طبرانی کی ہے  ’’ المعجم الاوسط  ‘‘ میں ، فرمایا :

6241 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّائِغُ قَالَ: نا مَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّمْلِيُّ قَالَ: نا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي عُقَيْلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هِشَامٍ قَالَ :  كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَتَعَلَّمُونَ هَذَا الدُّعَاءَ إِذَا دَخَلَتِ السَّنَةُ أَوِ الشَّهْرُ : اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ .
لَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامٍ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ .

امام طبرانی کی سند میں مہدی بن جعفر اور رشدین بن سعد ،دونوں میں محدثین کا کلام ہے ۔اور ملاحظہ فرمائیں کے دونوں روایتوں کا مدار(مجمع  الاسانید) : ابو عقیل زھرۃ بن معبد ہیں، ان سےدو  راویوں نے روایت کی ہے :

۱۔حیوہ بن شریح نے  (بغوی کی معجم الصحابہ میں برقم 1539)۔
۲۔ رشدین بن سعد نے  ( طبرانی کے معجم اوسط میں برقم 6241)۔

حیوہ بن شریح کی ثقاہت پر اتفاق ہے ، تو ان کی متابعت سےرشدین بن سعد کی سند کو تقویت مل گئی ، امام بغوی کی سند کے بقیہ تمام راوی بھی ثقات ہیں،اس لئےحافظ ابن حجر نے (اصابہ ) میں امام بغوی کی سند پر صحت کا حکم لگاتے ہوئےکہا : ( موقوف علی شرط الصحیح )  ۔

لیکن امام بغوی کی سند میں مجھے تامل ہے ، دو باتوں کی وجہ سے :
ایک تو امام طبرانی کی صراحت : (لَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامٍ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ
دوسری بات وہ جو امام ابن حبان نے ابوعقیل زھرہ بن معبد کے بارے میں کتاب  ’’ الثقات  ‘‘ میں کہی : ( يخطئ ويخطأ عليه ، وَقد قيل إِنَّه من التَّابِعين ، وهو ممن أستخير الله تعالى فيه ) ۔

دوسرے صحابی حضرت عبداللہ بن السائب کی روایت امام خطیب بغدادی کی کتاب ’’ المتفق والمفترق ‘‘میں ، اور امام قوام السنہ اصبہانی کی ’’ الترغیب  ‘‘ میں وارد ہے :

۱۔  خطیب بغدادی کی سند :
776- (5) وعبد الله بن السائب أُرَاه الغفاري :
(862) أخبرنا أبو حازم عمر بن أحمد بن إبراهيم الحافظ بنيسابور،أخبرنا أبو عمرو محمد بن جعفر بن محمد بن مطر المعدل،حدثنا إبراهيم بن علي الذهلي، حدثنا يحيى بن يحيى،أخبرنا عبد الله بن لهيعة،عن زهرة بن معبد،عن عبد الله بن السائب- وكان أدرك النبي صلى الله عليه وسلم - قال : كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعلمون هذا الدعاء كما يتعلمون القرآن إذا دخل الشهر والسنة : اللهم ادخله بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام وجوار من الشيطان ورضوان من الرحمن.

۲۔  قوام السنہ کی سند اور عنوان باب:
فصل : في الدعاء إذا دخل الشهر والسنة :
1291- أخبرنا أحمد بن علي بن خلف ، أنبأ أبو يعلى المهلبي ، ثنا محمد بن (عبيد) الله بن إبراهيم السليطي ، ثنا إبراهيم بن علي الذهلي ، ثنا يحيى بن يحيى ، أنبأ عبد الله بن لهيعة ، عن زهرة بن معبد ، عن عبد الله بن السائب - رضي الله عنه - وكان قد أدرك النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعلمون هذا الدعاء كما يتعلمون القرآن إذا دخل الشهر والسنة : اللهم أدخله بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام وجِوارٍ من الشيطان ورضوان من الرحمن ) ۔ 

دونوں روایتوں کےمدار ابراھیم بن علی ذھلی ہیں ، اور اس میں ابن لہیعہ کی  متابعت ہے زھرہ بن معبد سے روایت کرنے میں ، اور ابن لہیعہ کی روایات میں طویل کلام ہے ،یہاں پر ابن لہیعہ نے دونوں ( حيوه اور رشدین ) کی مخالفت کرتے ہوئے صحابی کانام عبد اللہ بن ہشام کے بجائے (عبداللہ بن السائب ) ذکر کیاہے ، اب پتہ نہیں کہ یہ حدیث زھرہ بن معبد نے دونوں صحابیوں سےنقل کی ہے ، یا ابن لہیعہ سے صحابی کے نام میں غلطی ہورہی ہے، اس کی تفتیش ضروری ہے۔

ان تمام طرق حدیث  میں لفظ ( سنہ ) وارد ہے ۔اور سال کے داخل ہونے پر پڑھنا بھی معتبر ہے ۔ مزید برآں امام قوام السنہ کےعنوانِ باب سے اس دعا پر( نئے سال کی دعا ) کا عنوان لگانا بھی مناسب ہے ۔
تمام بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا قطعاً مشکل نہیں کہ تمام دلائل کی روشنی میں دعا کا پڑھنا درست ہے۔ لیکن اس سے یہ ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ اسے دوسروں کو مبارکباد دینے کا ذریعہ  بنا لیا جائے۔ واللہ اعلم
                                                                                               وکتبہ : محمد طلحہ بلال احمد منیار(مع ترامیم)

 

Post a Comment

0 Comments