خوارج کون ہیں اور ان سے کیسا برتاؤ رکھا جائے


’لم نقاتل أهل النهروان على الشرك. وقول ابن عمر: (إنهم عمدوا إلى آيات فى الكفار فجعلوها فى المؤمنين) يدل أنهم ليسوا كفارًا؛ لأن الكافر لا يتأول كتاب الله؛ بل يرده ويكذب به.‘‘

ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ ’’ ان (خارجیوں) نے کافروں سے متعلق آیات کومومنین پر منطبق کیا ہے‘‘اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ (خوارج) کفار نہیں ہیں کیونکہ کافر(خارجیوں کی طرح) اللہ کی کتاب کی تاویل نہیں کرتا ہے بلکہ وہ اسے جھٹلاتا ہے اور اس کی تکذیب کرتا ہے۔‘‘
(شرح صحیح البخاری لابن بطال ، جلد 8 صفحہ 585)

خود رسول اللہﷺ کے دور میں ایک خارجی عبد اللہ بن ذی الخویصرۃ التمیمی آپﷺ کے پاس آیا اور اس نے آپ ﷺ سے کہا کہ ’’ اےاللہ کے رسول ﷺ انصاف کیجئے!‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن اڑادوں لیکن آپﷺ نے اجازت نہیں دی اور فرمایا :
’’مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي‘‘
’’اللہ کی پناہ! لوگ کہیں گے کہ میں اپنے صحابہ (ساتھیوں) کو قتل کررہا ہوں۔‘‘(مسند احمد ، صحیح مسلم)
اسی طرح صحابہ کرام نے مرتدین سے فورا جہاد شروع کیا جبکہ خارجیوں سے جنگ کرنے کی بجائے ان کی طرف اپنے وفود بھیج کر مناظرے اور بحث ومباحثے کرتے رہتے یہاں تک کہ آدھے سے زیادہ خارجی اپنے گمراہ عقائد سے توبہ کرکے واپس آگئے اور جو باقی بچ گئے ان کے شبہات کا رد کرتے ہوئے ان پر حجت کے اتمام کا سلسلہ خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جاری رکھا، یہاں تک کہ خارجیوں نے خود جنگ کا آغاز کیا اور مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کیا تو تب ان کیخلاف صحابہ کرام نے جہاد شروع کیا۔
صحابہ کرام نے ہر مرتد کو کافر قرار دیا جبکہ خارجیوں کو کافر نہیں کہا اور ان کو باغی وفاسق قرار دیا۔ یہاں تک کہ صحابہ کرام نے خارجیوں کیخلاف ہونے والے قتال کے باوجود بھی ان کو کافر نہیں قرار دیا۔ خلیفہ چہارم علی رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا گیا کہ اہل نہر (خوارج)کافر تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ
’’مِنَ الْكُفْرِ فَرُّوا ‘‘
ان (خارجیوں) نے کفر سے راہ فرار اختیار کی‘‘۔
(مصنف عبد الرزاق جلد10 صفحہ 150،فتح الباری لابن حجرجلد12 صفحہ 301، نیل الاوطار للشوکانی جلد ۷ صفحہ 199)
اسی طرح صحابہ کرام نے مرتدین کے ساتھ نہ تعلقات استوار کئے ، نہ ان کو بتدریج دعوت دی اور نہ ہی ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کیا جبکہ صحابہ کرام نے خوارج کے ساتھ تعلقات قائم کئے، ان کو بتدریج دعوت دیتے رہے اور ان کے ساتھ مسلمانوں والا سلوک کیا ۔
صحابہ کرام نے مرتدین کو کبھی مسلمان نہیں سمجھا اور نہ ہی ان کا کھانا اور ذبیحہ کھایا۔ جبکہ خارجیوں کو صحابہ کرام نے اسلام کے بنیادی ارکان پر عمل کرنے اور اسلام کی اصل کو مضبوطی سے تھامنے کی وجہ سے مسلمانوں میں سے ہی سمجھا، ان کا کھانا اور ذبیحہ ( ذبح کیا ہوا جانور) کھایا۔
صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے جمہور علماء کا موقف یہی ہے کہ مرتد کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جاسکتی اور مرتد ہر حالت میں کافر ہے جبکہ خارجی کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے اور وہ کافر نہیں ہے۔ سیدنا علی ابن ابی طالب ، عبد اللہ بن عباس، سعد بن ابی وقاص اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اس بات پر اجماع واتفاق ہے کہ خوارج کافر نہیں ہیں ۔ اسی طرح مسلمانوں کے ائمہ میں سے امام شافعی، امام ابو حنیفہ، امام شاطبی، امام ابن تیمیہ، امام النووی رحمہم اللہ اور دیگر جمہور علمائے امت کے نزدیک خارجی کافر نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ امام احمد ، امام الباقلانی، امام الجوینی اور امام الغزالی رحمہم اللہ ودیگر نے خارجیوں کی تکفیر کرنے سے گریز کیا۔ بلکہ امام ابن رجب رحمہ اللہ نے فتح الباری میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا فتوی ذکر کیا ہے ، جس میں آپ نے فرمایا :
’’ابوعبید نے کہا کہ جس نے جہمی یا رافضی (شیعی) کے پیچھے نماز پڑھی تو اسے دوبارہ اپنی نماز پڑھنی پڑے گی ۔ لیکن جس نے خارجی کے پیچھے نماز پڑھی تو اسے نماز دوبارہ نہیں دہرانی پڑھے گی۔ ‘‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے مزید فرمایا :
” وقال في الخوارج : إذا تغلبوا على بلد : صلي خلفهم .. وقال – مرة – : يصلى خلفهم الجمعة “
’’خوارج کی بابت آپ نے کہا کہ اگر وہ شہر پر غالب آجائے تو ان کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھی جائے گی‘‘۔ ایک دفعہ آپ نے فرمایا : ’’ ان (خارجیوں) کے پیچھے جمعہ کی نماز پڑھی جائے گی۔‘‘(فتح الباری لابن رجب جلد 6 صفحہ 191)
علامہ ابن بطال رحمہ اللہ نے خارجیوں کا حکم بتاتے ہوئے فرمایا :
’’ذهب جمهور العلماء إلى أن الخوارج غير خارجين عن جملة المسلمين‘‘
’’جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ خوارج مسلمانوں کی اجتماعیت سے خارج نہیں ہیں۔
(فتح الباری لابن حجر، جلد 12 صفحہ 301)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب منہاج السنۃ میں لکھتے ہیں:
’’ومما يدل على أن الصحابة لم يكفروا الخوارج أنهم كانوا يصلّون خلفهم ، وكان عبدالله بن عمر – رضي الله عنه – وغيره من الصحابة يصلون خلف نجدة الحروري ، وكانوا أيضا يحدّثونهم ويخاطبونهم كما يخاطب المسلم المسلم ، كما كان عبدالله بن عباس يجيب نجدة الحروري لما أرسل إليه يسأله عن مسائل ، وحديثه في البخاري ، وكما أجابنافع بن الأزرق عن مسائل مشهورة ، وكان نافع يناظره في أشياء بالقرآن كما يتناظر المسلمان ، وما زالت سيرةالمسلمين على هذا ، ما جعلوهم مرتدين كالذين قاتلهم الصديق .هذا مع أمر الرسول صلى الله عليه وسلم بقتالهم في الأحاديث الصحيحة وما روي من أنهم “شر قتلى تحت أديم السماء ، خير قتيل من قتلوه” في الحديث الذي رواه أبو أمامة رواه الترمذي وغيره ، أي أنهم شر على المسلمين من غيرهمفإنهم لم يكن أحد شراً على المسلمين منهم لا اليهود ولا النصارى فإنهم كانوا مجتهدين في قتل كل مسلم لم يوافقهم ، مستحلين لدماء المسلمين وأموالهم وقتل أولادهم ، مكفّرين لهم ، وكانوا متدينين بذلك لعظم جهلهم وبدعتهم المضلة ، ومع هذا فالصحابة – رضي الله عنهم – والتابعون لهم بإحسان لم يكفروهم ولا جعلوهم مرتدين ولا اعتدوا عليهم بقولولا فعل ، بل اتقوا الله فيهم وساروا فيهم السيرة العادلة‘‘
’’صحابہ کرامؓ نے خوارج کی تکفیر نہیں کی ہے، اس پر دلالت کرنے والا ایک ثبوت صحابہ کرام کا خوارج کے پیچھے نماز پڑھنا ہے۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ بہت سارے صحابہ کرام نجدۃ حروری کے پیچھے نماز پڑھاکرتے تھے ، اور ان (خوارج) سے صحابہ کرام اسی طرح بات چیت کرتے اور مخاطب ہوتے تھے جس طرحایک مسلمان دوسرے مسلمان سے مخاطب ہوتا ہے۔ اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نجدہ الحروری کوجوابات دیتے تھے جب وہ ان سے مسائل کے بارے میں پوچھنے کے لیے ان کی طرف اپنے سوالات بھجواتا تھا ،اور اس (واقعہ ) کی حدیث بخاری کے اندر بھی مذکور ہے ، اسی طرح نافع بن الازرق نے مشہور مسائل کا جواب دیا، اور نافع قرآن سے متعلق اشیاء میں اس سے اسی طرح مناظرہ کرتے تھے جیسے دو مسلمان آپس میں (ادب واخلاق) کے ساتھ مناظرے کرتے ہیں، مسلمانوں کا خوارج کے ساتھ یہی برتاؤ رہا اور انہوں نے کبھی خوارج کو ان مرتدین جیسا نہیں سمجھا جن کیخلاف صدیق رضی اللہ عنہ نے قتال کیا تھا۔
یہ صحابہ کرام کا خوارج کے ساتھ رویہ تھا، جو انہوں نے رسول اللہﷺ کی خوارج کے ساتھ قتال کرنے کی بابت موجود صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے اختیار کیا تھا۔ خوارج سے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا :’’وہ آسمان کے نیچے سب سے برے مقتول ہیں ، اور جن کو وہ شہید کرتے ہیں وہ سب سے اچھے مقتول ہیں۔‘‘یہ حدیث ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جسے ترمذی اور دوسروں نے نقل کیا ہے۔
م ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
” والخوارج أكثر وأعقل وأدين من الذين ادعوا فيه [أي في علي] الإلهية [وهم الرافضة] … فالخوارج من أعظم الناس صلاة وصياماً [وقراءة للقران] ، ولهم جيوش وعساكر ، وهم متدينون بدين الإسلام باطناً وظاهرا. والغالية المدّعون للإلهية إما أن يكونوا من أجهل الناس وإما أن يكونوا من أكفر الناس ، والغالية كفار بإجماع العلماء ، وأما الخوارج فلا يكفّرهم إلا من يكفّر الإمامية ، فإنهم خير من الإمامية ، وعلي رضى الله عنه لم يكن يكفرهم ، ولا أمر بقتل الواحد المقدور عليه منهم ، كما أمر بتحريق الغالية ، بل لم يقاتلهم حتى قتلوا عبد الله بن خباب وأغاروا على سرح الناس.
’’خوارج ان لوگوں سے زیادہ عقلمند اور دیندار ہیں جنہوں نے اس (یعنی علی رضی اللہ عنہ) میں الوہیت ہونے کا دعوی کیا ( اور وہ شیعی رافضہ ہیں)… خوارج لوگوں میں سب سے زیادہ نماز، روزے اور قرآن پڑھنے والے ہیں۔ خوارج کی افواج اور سپاہی سب کے سب دین اسلام کی ظاہری وباطنی طور پر پابندی کرنے والے ہیں۔ جبکہ الوہیت کا دعوی کرنے والے غالیہ (شیعی روافضہ) یا تو لوگوں میں سب سے زیادہ جاہل ہیں یا پھر لوگوں میں سب زیادہ کفر کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔ تمام علماء کا اجماع(واتفاق) ہے کہ غالیہ (رافضہ) کافر ہیں۔ اس کے برعکس خوارج کی تکفیر صرف ان (علماء) نے کی جو امامیہ کی تکفیر کرتے ہیں ، کیونکہ خوارج امامیہ سے بہتر ہیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کی تکفیر نہیں کی اور نہ ہی خارجیوں میں سے قابو میں آنے والے کسی فرد کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ جبکہ (اس کے برعکس) آپ رضی اللہ عنہ نے غالیہ(شیعہ) کو زندہ نذرآتش کرنے کا حکم دیا۔ بلکہ آپ رضی اللہ عنہ نے تو خارجیوں کیخلاف قتال اس وقت تک نہیں کیا یہاں تک کہ ان خارجیوں نے عبد اللہ بن خباب کو قتل کردیا اور لوگوں کے مویشیوں پر حملہ آور ہوئے۔‘‘( منھاج السنۃ جلد 4 صفحہ 38 )

Post a Comment

0 Comments